Dr Zakir Naik - 7426 - Why evolution is impossible

preview_player
Показать описание
This message of Dr Zakir Naik, refers to speech

"Concept of God in World Major Religion"

The identification of the videos that you will find in the channel are described as follows:

(A) Dr Zakir Naik - (B) 7001 - (C) What is the Purpose of our life?

(A) - All videos beginning with that description;

(B) - The first two numbers are only a record of the lecture, according to the order that I'm watching and registering in my control, in this case (70) is the seventieth lecture;
the last two digits of the number are the subject within the lecture, in the case that is the subject 01 in the lecture 70;
Looks can be deceiving;

(C) - This is the description of the subject;

Thanks for watching, God bless you!

The Theory of Evolution will never become a law of science because it is wrought with errors. This is why it is still called a theory, instead of a law. The process of natural selection is not an evolutionary process.



Remarks: This video was based on

Рекомендации по теме
Комментарии
Автор

"A scientific theory is an explanation of an aspect of the natural world and universe that has been repeatedly tested and verified in accordance with the scientific method, using accepted protocols of observation, measurement, and evaluation of results"
There enough said. That's the definition.
The only people who oppose evolution are the ones that don't understand it.

DINOSAURIA
Автор

theory is the 4th stage of scientific research. hypothisis is the 2nd stage. observation is the first. law is the 5th.

omarellahi
Автор

انسان کا وجود ارتقا سے نہیں ہوا

انسان اور حیوان جسمانی بناوٹ میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں ۔ دونوں کا حیاتیاتی نظام بعض بعض ظاہری فرق کو چھوڑ کر یکساں ہے ۔ مگر حیوان کا بچہ حیوان پیدا ہوتا ہے اور بڑا ہوکر بھی حیوان ہی رہتا ہے اور حیوانیت کے مقام سے آگے نہیں بڑھتا ۔ جبکہ انسان کے آغاز و انجام میں بہت فرق ہے ۔ وہ ابتدائی پیدائش کے وقت بظاہر حیوان کی سطح پر ہوتا ہے ۔ مگر بڑھتے بڑھتے بالکل دوسری مخلوق بن جاتا ہے ۔ حیوانیت کی سطح سے اٹھ کر انسانی کمال کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے ۔ بعض حیاتیاتی مشابہت کے باوجود حیوان حیوان ہے اور انسان انسان ۔

انسانی جنین میں کچھ ایسی خصوصیات ہوتی ہیں جو حیوانی جنین میں نہیں ہوتیں
اس وجہ سے انسانی جنین بڑھتے بڑھتے بالآخر
ایک بالکل " خلقا آخر " ( دوسری مخلوق ) بن
جاتا ہے ۔ جبکہ حیوانی جنین میں ترقی کی یہ صلاحیت نہیں ہوتی ۔ وہ بڑھنے کے بعد بھی حیوانی مرحلہ میں ٹھہر کر رہ جاتا ہے ۔ کیوںکہ اس کے اندر وہ خصوصیات موجود نہیں ہوتیں جو اس کو آگے لے جاسکیں ۔ کوئی بھی کوشش حیوانی جنین کو انسان تک ترقی نہیں دے سکتی ۔

معلوم ہوا کہ انسان اور حیوان میں ظاہری مشابہت کے باوجود ، بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے
حیوان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے حیوانی مرتبہ سے آگے بڑھ کر مرحلہ در مرحلہ میکانیکی ترقی کرتا ہوا انسان کے مرحلہ تک پہنچ جائے ، جیساکہ ارتقا پسند علماء دعوی کرتے ہیں ۔ اس کے برعکس انسان کے لیے فطری طور پر مقدر ہے کہ وہ ان ترقیاتی مرحلوں سے گزرے اور بالآخر کامل انسانیت کے مقام کو حاصل کرے ۔

حقیقت یہ ہے کہ انسان اور حیوان دو مختلف نوعیں ہیں ۔ ابتدائی ہیولی دونوں کا اگرچہ بہت کچھ ملتا جلتا ہے ، کیوںکہ دونوں کو ایک ہی طرح کی دنیا میں رہنا بسنا ہوتا ہے ۔ مگر انسان کے اندر خدا نے اپنی روح پھونکی جس کی وجہ سے انسان ایک اور ہی مخلوق ہوگیا
یہی خدائی روح ہے جس کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ انسانی جنین حیوان کے مرحلہ سے گزر کر ایک اعلی مخلوق کی صورت اختیار کرے ۔
دونوں ہی کا تعلق خدائی مقدرات سے ہے ۔ حیوان کے لیے اول دن سے یہ مقدر رہتا ہے کہ وہ حیوان بنے اور انسان بھی اول دن سے یہ یہ قدرتی فیصلہ اپنے ساتھ لے کر آتا ہے کہ اس کو بالآخر انسان بن کر کھڑا ہونا ہے ۔


ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی

Post Doctoral researcher on Theory of Eolution in comparison with Qur'anic Account of Creation.

laeequenadvi
Автор

Evolution has been observed in the lab and field, both micro and macro, and is therefore absolutely a fact. People who argue against evolution must be ignorant of that fact.

doctorwebman
Автор

نظریہ ارتقا اور قرآنی ابداع و تخلیق کائنات اور انسان کا تقابلی مطالعہ و تحقیق میرے
ڈاکٹریٹ کے بعد کا تحقیقی موضوع ہے ۔

25،26 مئی 1913 میں امریکہ/ کینٹوکی کے عالمی اسلامی ریسرچ فاؤنڈیشن (IRFI) ایک عالمی کانفرنس منعقد کی گئی تھی ۔ اس میں شرکت کے لیے کانفرنس نے مختلف موضوعات پر مقالات طلب کیا تھا جن کی تفصیل ' Islamic Voice ' سپتمبر 2011 میں شائع کی گئی تھی ۔ ان میں دوسرا اہم موضوع Islamic Theory of Evolution تھا ۔ تین سو الفاظ پر مشتمل مقالہ کا خلاصہ 30 جون 2012 اور مقالہ 15 دسمبر 2012 تک پیش کردینے کے لیے کہا گیا تھا ۔ میں نے وقت مقررہ کے اندر خلاصہ مقالہ اور مکمل مقالہ بذریعہ ای میل بھیج دیا ۔ میرے مقالہ کا عنوان تھا
The Holy Qur'an refutes the Theory of Evolution
چونکہ یہ کانفرنسں کے منتظمین کے مقصد کے خلاف تھا اس لیے انہوں نے مجھے کانفرنسں میں شرکت کے لیے مدعو نہیں کیا لیکن شاید انہوں نے اسے اپنے ویب سائٹ میں ڈال دیا ۔

اس کے بعد سے مجھے اس موضوع پر جو کچھ لٹریچر ملتا ہے اس کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں ۔ انگریزی مقالہ میں نے یو ٹیوب کے مختلف عالمی چینلز میں ڈال دیا ہے ان پر انگریزی میں دنیا کے مختلف ملکوں سے موافقت اور موافقت میں کومنٹس آتے رہتے ہیں ۔
چارلس ڈارون کا نظریہ ارتقا ایک عالمی اور دنیا کا سب سے بڑا موضوع ہے اور ہند میں اس پر بہت کم توجہ دی گئی ۔ مولانا شہاب الدین ندوی رحمہ نے ' تخلیق آدم اور نظریہ ارتقا ' پر ایک کتاب لکھی تھی جو فرقانیہ اکیڈیمی بنگلور سے شائع کی گئی تھی ۔ یونیورسیٹیوں کے فارغین تو ڈارونزم کی موافقت اور تعریف کرتے نظر آتے ہیں ۔

بہر حال یہ اللہ جل شانہ کی مشیت تھی کہ اس نے مجھے اس موضوع کی طرف توجہ کرنے اور کچھ کام کرنے کی توفیق بخشی

این سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

ڈاکٹر محمد لئیق ندوی

ڈائرکٹر
آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
A Global and Universal Research Institute

laeequenadvi
Автор

نظریہ ارتقا اور ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم

ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے اپنی تصنیف
' قرآن اور علم جدید ' میں مغربی تہذیب کے چار اساسی نظریات پر بحث کی ہے :
١-- نظریہ ارتقا ٢ -- ننظریہ جبلت ٣ -- ن نظریہ تحلیل نفسی جسے فرائیڈ ازم کہتے ہیں
٤ -- نظریہ وطنیت ۔ ان نظریات سے انہیں کامل اتفاق ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ نظریہ ارتقا ان تمام دوسرے نظریات کی بنیاد ہے جن پر علم جدید کی عمارت کھڑی ہے ۔ ان کی اس تصنیف
کا بڑے بڑے حصے میں اسی سے کی گئی ہے ۔

' قرآن اور علم جدید ' کے صفحہ ١٠٩ پر لکھتے ہیں : " اب دیکھنا یہ ہے کہ عالمی ارتقا کا نظریہ جس کا ایک حصہ ڈارون کا نظریہ ہے اور جس کی طرف ڈارون کا رہنمائی کرتا ہے صحیح ہے یا غلط یعنی روح قرآنی کے مطابق ہے یا غیر مطابق ۔۔۔۔۔

ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم ایک مغرب زدہ اور مغرب سے بہت مرعوب نظر اتے ہیں ۔ انہوں نے بہت لایعنی باتیں کہی ہیں جن کا ذکر کرنا
بے کار ہے ۔
ڈاکٹر صاحب نے ' قرآن اور علم جدید ' میں آدم علیہ السلام کی پیدائش نظریہ ارتقا کے مطابق ثابت کرنے کے لیے متعلقہ قرآنی آیات کی تشریح ارتقا کے مطابق کرتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی باک محسوس نہیں کیا کہ :

" قرآن میں آدم علیہ السلام کی پیدائش ایک ڈرامائی انداز میں کی گئی ہے "۔
گویا اللہ تعالی کا فرشتوں کو آگاہ کرنا کہ وہ زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہے ، پھر ایک مشت خاک سے آدم کی تخلیق اور اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونکنا ، فرشتوں سے آدم سے سجدہ کرانا اور ابلیس کا سجدے سے اس لیے انکار کرنا کہ وہ آدم سے بہتر ہے کیوں کہ وہ آتش سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم مٹی سے ۔ ادم و حوا کا ایک مدت مقررہ تک جنت میں رہنا پھر ابلیس کا ان کو بہکا کر اللہ جل شانہ کی حکم عدولی کرانا ، پھر آدم کا معافی کا خواستگار ہونا اور توبہ کا قبول ہونا اور جنت سے زمین پر بھیج دیا جانا ساری باتیں بطور ڈرامہ بیان کی گئی ہیں ورنہ آدم کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ انسان کا ظہور و وجود
کی حقیقت وہ ہے جو ماہرین ارتقا بیان کرتے ہیں ۔
جاری

ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
Dr.Mohammad Laeeque Nadwi

Director
Amena Institute of Islamic Studies and Analysis
A Global and Universal Research Institute

laeequenadvi
Автор

سقوط خلافت کے بعد امہ مسلمہ
کی حالت زار

نحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کی تھی کہ " عنقریب قومیں تم پر ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے کھانے پڑتے ہیں "۔
اس پیش گوئی کا آغاز صلیبی جنگوں( ١٠٩٥-- ١٢٩١) سے ہوا ۔ یہ عالم عیسائیت کا امت مسلمہ پر پہلا اور زبردست حملہ تھا ۔ اس کے پیچھے یہودی سازش کام کر رہی تھی ۔ یہ پہلی صلیبی جنگ تھی جس میں جس عیسائی بیت المقدس قابض ہوگئے ۔

١٤٩٣ میں جنوبی اسپین میں اموی حکومت کا ختم کردی گئی ۔ اس کے بعد یوروپ میں عثمانی سلطنت کے خلاف صلیبی جنگ کی آواز بلند ہوتی رہی ۔ ان کے خلاف در پردہ گہری ، طویل المدت اور منصوبہ بند سازشیں چلتی رہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یوروپی ممالک عثمانیوں کے خلاف متحد ہو گئے ۔ وہ تاریکی اور جہالت کے دور سے نکلنے کر علم و تمدن کی طرف آنے لگے جسے یوروپ کی ' نشاة
ثانیہ ' کہتے ہیں ۔ انہوں نے فنون حرب اور اسلحہ سازی میں ترقی کرنا شروع کردیا ۔

١٦٨٣ میں ویانا میں قرہ مصطفی پاشا کو یوروپی ممالک کے مقابلہ میں ایک بڑی شکست ہوئی ۔ سلطنت عثمانیہ کی اس شکست پر پورے یوروپ میں بہت خوشی منائی گئی ۔
آسٹریا ، بولونیا ، وینس ، سلطنت روس ، رہبان مالٹا اور پاپائے روم نے مل کر " مقدس عہد" کیا کہ یوروپ سے عثمانیوں کو نکال کر دم لیں گے تاکہ اسلام یوروپ عیسائیت( + یہودیت) کا حریف نہ بن سکے اور اس کے اثرات بالکل ختم ہوجائیں ۔

١٦٩٩ میں معاہدہ کرلووٹز( Treaty of Korlowitz) ہوا ۔ اس کے بعد عثمانی سلطنت کمزور ہوتی چلی گئی ۔ عثمانیوں کو بہت سے مفتوحہ علاقے سے دست بردار ہونا پڑا ۔ عثمانی فوج کا یوروپی ممالک اور ان کے افواج پر جو رعب و دبدبہ تھا وہ بھی کمزور ہوگیا ۔

حقیقی خلافت تو ٦٦١ ھ ہی میں ختم کردی گئی تھی ۔ اس کی وجہ صرف داخلی نہیں بلکہ خارجی بھی تھی لیکن روئے ارض پر اس کی اعتباری حیثیت ضرور باقی رہی ۔ مرور زمانہ کے ساتھ وہ بھی شکست و ریخت کا شکار ہونے لگی اور اس کا جاہ و جلال اور تب و تاب بھی ختم ہوگئی ۔ آخری زمانہ میں صیہونی صلیبی منصوبہ بند سازشوں نے زور پکڑا اور اسلام مخالف نظریات کو فروغ دیا گیا
تصور خلافت اور اسلامی تعلیمات کو بیکار اور فرسودہ قرار دے کر یوروپ کے جمہوری نظام اور ملحدانہ نظریات کے لیے راہ ہموار کیا گیا ۔ مصطفی کمال اتاترک ایک مسلم نما یہودی فوجی کمانڈر کو ہیرو بناکر پیش کیا گیا اور اسی کے ہاتھوں خلافت کی قبا چاک کردی گئی ۔
چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا میں
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ

سلطنت عثمانیہ ہی امہ مسلمہ کی مرکزی طاقت اور پناہ گاہ تھی جس نے سارے عالم اسلام كو متحد کر رکھا تھا ۔ عثمانیوں نے اسلام اور مسلمانوں کی وہ خدمات کیں جن سے عباسی خلافت اپنی شکستہ حالت اور ناتوانی کی وجہ سے بالکل قاصر ہوچکی تھی
چھ سو سال تک وہی صلیبی حملوں سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے سینہ سپر اور شمشیر بکف رہے ۔ جسد اسلامی کو انہوں نے ہی متحدہ صیہونی اور صلیبی حملوں سے بچاکر رکھا ۔ اس لیے اعداء اسلام کی غاضبانہ نظر انہیں پر مرکوز رہی کہ اگر عثمانی سلطنت کو ختم کردیا جائے تو سارا عالم اسلام ان کے قبضہ میں آجائے گا اور بالآخر صدیوں کی مسلسل سازشوں اور چالبازیوں کے وہ اپنے شیطانی منصوبہ میں کامیاب ہوگئے ۔

سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد امہ مسلمہ بے یار و مددگار ہوگئی اور اس کا کوئی پرسان حال نہ رہا ! وہ اعداء اسلام کے نرغے میں آگئی
انہوں نے جسد اسلامی کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے
عالم اسلام کا شیرازہ بکھیر کر ان پر غاصبانہ قبضے کرلیے ۔ اس کے بعد جدید شیطانی عالمی نظام کے تحت ان کو طرح طرح کے شکنجوں
میں اس طرح جکڑ دیا کہ وہ بے بس ہو کر رہ گئی اور بے دریغ اس کا خون نا حق بہایا جاتا رہا یے اور وہ مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہی ہے

اس کی قوتوں کو توڑ کر خود اس کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا یے ۔ ان وجوہات سے امہ مسلمہ مخلتف قسم کی ذہنی اور نفسیاتی اضطراب کا شکار ہے ۔ اس صورت حال نے امہ مسلمہ پر بہت خراب منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور وہ ذہنی جمود اور تعطل کا شکار ہوچکی ہے ۔

خلافت کے خاتمہ کے بعد مسلسل اس کی حمیت ، دہنی غیرت اور اسلامی تشخص پر ہونے والے حملوں سے اس کی ملی آرزوؤں اور امنگوں کا خون ہوتا رہا ۔ ان تمام تکلیف دہ حالات کا سبب سقوط خلافت کے بعد کی مسلم قیادت ہے ۔ وہ فریب خوردہ ، شکست خوردہ ، بے نشاط اور بزدل ہوکر منافق ہوگئی ہے ۔ وہ اسلامی فکر و نظر سے محروم اور لادین ہوچکی ۔ آج امہ مسلمہ کو یہی شکایت ہے اور وہ اسی زبون حال قیادت کی منافقت اور بزدلی کا شکار ہے ۔

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

وہ دین جو بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے

مولانا حالی رحمہ

ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی

laeequenadvi
Автор

آج کا ملحدانہ نظریہ ارتقا 
                          یا 
قرآن مجید کا کائنات اور تخلیق آدم 
کے بارے میں بیانات

آدم اور حوا علیہما السلام کو اللہ جل شانہ نے
جنت میں پیدا کیا ۔ اللہ نے پہلے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان سے ان کا جوڑا حوا علیہا السلام کو پیدا کیا ہے اور انہیں جنت میں رکھا جیسا کہ قرآن میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے : 

يا آدم اسكن انت و زوجك الجنة و كلا منها رغدا حيث شئتما و لا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين o         ( البقرة : ٣٥) 

اور ہم نے آدم سے کہا کہ " تم اور تمہاری زوجہ دونوں جنت میں رہو اور اس میں سے بفراغت جہاں سے چاہو کھاؤ ، مگر اس درخت کے نزدیک نہ جانا ورنہ ظالموں میں شمار ہوجاؤ گے ۔
اس کے بعد ارشاد فرمایا : 
فازلهما الشيطان و أخرجهما مما كانا فيه ، و قلنا اهبطوا بعضكم لبعض عدو ، و لكم في الأرض مستقر و متاع إلى حين o 
                                  ( البقرہ :  ٣٦) 

پھر لغزش دیدی ان دونوں کو شیطان نے اس ( درخت) کے بارے میں سو نکال دیا ان دونوں کو اس حالت سے جس میں وہ تھے ، اور ہم نے کہا تم ( یہاں سے) اترجاؤ ، تم میں سے بعض بعض کے دشمن رہو گے اور تم ( بنی آدم اور  ذریت ابلیس) کے لیے زمین میں ایک مقررہ مدت تک ( for a time )  رہنا ہے اور متاع (زندگی) ہے ۔
ان دونوں سے زمین پر انسانی اولاد پیدا ہوتی
بڑھتی اور زمین کے مختلف حصوں میں پھیلتی رہی ۔

قرآن میں اللہ جل شانہ نے انسان کی پیدائش کے واقعہ کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے ۔

انسان زمین میں عمل ارتقا ( Evolution) سے وجود میں نہیں آیا اور نہ ان کے اجداد (ancestors) مختلف قسم کے جانوروں اور چمپانزی ( Chimpanzee) سے ارتقا کرتے ہوئے اور مختلف حیوانی مراحل سے گزرتے ہوئے موجودہ انسانی حالت میں ظاہر ہوئے ہیں ۔
قرآن مجید ميں اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے کہ " وإذا قال ربک للملئكة إنى خالق بشرا من صلصال من حمأ من مسنون o فإذا سويته و نفخت فيه من روحى فقعوا لہ ساجدين o فسجد الملائكة كلهم اجمعون o إلا ابليس أبى أن يكون مع السجدين o قال يا إبليس ما لك ألا تكون مع السجدين o قال لم أكن لأسجد لبشر خلقته من صلصال من حمأ مسنون o ( الحجر : ٢٨ -- ٣٢ )

اور جب آپ کے رب نے فرشتون سے کہا کہ میں ایک بشر کو بجتی ہوئی مٹی سے جو کہ سڑھے ہوئے گارے سے بنی ہوگی پیدا کرنے والا ہوں ۔ سو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گرجانا ۔ سو سارے فرشتون نے سجدہ کیا ، سوائے ابلیس کے اس نے اس بات کو قبول نہیں کیا کہ سجدہ کرنے والوں میں شامل ہو ۔

قرآن میں تخلیق آدم کے بارے میں مزید تفصیلات ہیں ۔ جنہیں مختلف سورتوں کی آیات میں بیان کیا گیا ہے ۔

نظریہ ارتقا انسان کی پیدائش کے بارے میں قرآن مجید کے بیانات کو نہیں مانتا اور ان کا انکار کرتا ہے ۔ نظریہ ارتقا کے مطابق آدم علیہ السلام کا کوئی وجود نہیں ہے ۔

نظریہ ارتقا اللہ جل شانہ کی ذات کو نہیں مانتا ہے بلکہ ایک موجد کائنات اور خالق انسان
کا انکار کرتا ہے ۔ اس کا دعوی یہ ہے کہ یہ کائنات اور انسان قدرتی اور طبعی ارتقاء عمل سے وجود میں آئے ہیں اور ان کے وجود میں آنے میں کسی خالق کا ہاتھ نہیں ہے ۔

ہم کائنات اور انسان کی تخلیق کے بارے میں قرآن کے بیانات کو مانتے ہیں اور یہی اصل سائنس ہے ۔
اللہ تعالی کا سورہ الملک میں ارشاد ہے :
الا يعلم من خلق و هو اللطيف الخبير .
(الملک: 14)
كیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے ، حالاں کہ باریک بیں اور باخبر ہے ۔
اس آیہ کریمہ میں اللہ نے انسانوں کو بتایا ہے وہ جو کہتا ہے وہ حقیقی علم ( Science ) پر مبنی ہے ۔ اور آج کے سائنسداں کہتے ہیں وہ حقیقی علم پر مبنی نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ مفروضے اور نظریئے ہوتے ہیں جنہیں نئے مخالف معلومات ( data ) کی بنا پر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔
مثال کے طور پر پہلے سائنسداں یہ مانتے تھے کہ یہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی
بیٹوں اس نظریہ کو مانتے ہوئے مرا ، لیکن
١٩٢٣ میں امریکی سائنسداں ایڈون ہبل نے پھیلتی کائنات( Expanding Universe ) کا نظریہ پیش کیا جس کی رو سے یہ کائنات
یہ کائنات ایٹم سے چھوٹے ایک نقطہ
( Singular Point)
میں سمٹی ہوئی تھی ۔ اس میں ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا اور اس یونیورس کا آغاز ہوا ۔
اس نظریہ کے سامنے آنے کے بعد کائنات کے بارے میں Static نظریہ کو ہمیشہ کے لیے ترک کردیاگیا ۔
نیچرل سائنس میں کوئی چیز دائمی نہیں ہوتی کیوں کہ یہ انسانی علم ہے جو ناقص معلومات اور کم علمی پر مبنی ہوتی ہے ۔

سائنسداں کہتے ہیں کہ پھیلتی کائنات کا نظریہ انسانی تاریخ میں بیسویں صدی میں پہلی بار پیش کیا گیا ۔ اس سے پہلے انسان اس سے واقف نہیں تھا ۔ اسٹیفین ہاکنگ کا یہی دعوی ہے ۔
لیکن قرآن کریم میں اللہ جل شانہ نے ساتویں صدی کے شروع میں انسانوں کو بتادیا تھا کہ

" ہم نے آسمان کو اپنے زور ( قدرت کاملہ) سے بنایا ہے اور ہم اس کو پھیلا رہے ہیں "۔
( الذاريات: ٥١)
اس بحث سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ
اصل سائنس وہ جسے اللہ نے قرآن میں بیان کیا ہے ۔ اس کے مقابلے میں انسان کا علم ناقص اور نئے معلومات کی روشنی میں بدل جاتا ہے ۔

اسی طرح انسان کی تخلیق کے بارے میں نظریہ ارتقا کا حال ہے ۔ یہ نظریہ ثابت شدہ نہیں ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ بالکل ثابت ہوگیا ہے کہ نظریہ ارتقا بالکل صحیح ہے جبکہ یہ آج تک ایک نظریہ ہی نہیں بلکہ مفروضہ ہے ۔


ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی

ڈائرکٹر
آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
A Global and Universal Research Institute

laeequenadvi
Автор

اللہ قادر مطلق کی تخلیق 
                             یا
              جدید ملحدانہ نظریہ ارتقا 

زندگی اور انسان کی تخلیق اور جینیاتی معلومات اللہ جل شانہ کی طرف سے فراہم کردہ ہین ۔ 
انسان ارتقائی عمل سے پیدا نہیں ہوا ہے ۔ قرآن کریم کے بیان کے مطابق اللہ جل شانہ نے  مٹی سے ا نسان کو پیدا کیا اور اس مین اپنی روح میں سے کچھ پھونکا اس طرح پہلا بشر پیدا کیا گیا ۔ 
و لقد خلقنا الإنسان من صلصال من حمأ مسنون والجان خلقناه من قبل من نار السموم o و إذ قال ربك للملئكة إنى خالق بشرا من صلصال من حمأ مسنون o فإذا سويته و نفخت فيه من روحى فقعوا له سجدين o 
                               ( الحجر : ٢٦ -- ٢٩) 
 ترجمہ : ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا اور اس سے پہلے جنوں کو ہم آگ کی لپٹ سے پیدا کرچکے تھے ۔ پھر یاد کرو اس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑھی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے ایک بشر کر رہا ہوں ۔ جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گرجانا ۔ 

کیا قرآن کے پہلے بشر کو پیدا کرنے کے بیان سے ذرا سا بھی حیوانی ارتقا کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ؟
میرا سوال یہاں یہ ہے کہ نظریہ ارتقا کے ماہرین اور سائنسدانوں کا انسان کی تخلیق سے متعلق قرآن کریم کے بیانات کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ کیا سائنسداں قرآن کریم کے تخلیقی بیانات کو مانتے ہین ۔ وہ تو اللہ جل شانہ کی ذات کا کھلا انکار کرتے ہین ۔ 

جو نظریہ سرے سے ذات الہ کا قائل نہیں ہے اس کو قرآن سے جوڑنا اور ثابت کرنا گمراہی کے سوا کچھ اور نہین ۔ ارتقا ان کے نزدیک صرف ایک کیمیائی اور قدرتی عمل ہے جس مین اللہ جل شانہ کی ذات کا سرے سے کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔  

غامدی صاحب  نہایت شاطرانہ طریقے سے قرآنی ارتقا اور موجودہ ارتقا میں فرق کرنے کی چال چلی ہے اور مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہا ہے ۔ 
جہاں تک Genatic informations کا تعلق ہے تو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے کہ بطن مادر میں جب  تخلیق مکمل ہوجاتی ہے تو اس وقت اس کی زندگی کے بارے تمام معلومات درج کردیے جاتے ہیں جنہیں آج کی سائنس کی زبان مین جینیاتی معلومات کہتے ہین ۔ 

کیمیائی اور قدرتی طور پر ان معلومات کا ابتدائی ارتقائی عمل کے وقت جس وقت پہلا خلیہ بنتا ہے خود بخود ان کے اندر آجانا ( store ) ہوجانا مضحکہ خیز بات ہے ۔ 

قرآن کریم کے بیانات سے یہ  بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ انسان ارتقائی عمل سے پیدا نہیں ہوا ہے ۔ یہ محض ایک افسانہ ہے ۔ اس کے سوا اور کچھ نہین . 

مٹی سے انسان کی  تخلیق : 

 الذى أحسن كل شئ خلقه و بدأ خلق الإنسان من طين o          (٧ : ٣٢)
جس (ذات ) نے ہر شئ کی بہتر تخلیق کی ۔ اس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا مٹی سے کی ۔
اس کا وہ معنی نہیں ہے جو غامدی صاحب نے بتایا بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ پہلے بشر کی تخلیق کا ابتدائی مادہ مٹی ہے ۔ 

نظریہ ارتقا تو کہتا ہے کہ زندگی کی ابتدا پانی میں ہوئی اور پھر زندگی کے وجود میں آنے کا ایک طویل افسانہ تیار کردیا جاتا ہے !!!! 

مٹی سے تخلیق کے لیے اس کتاب کا مطالعہ مفید ہوگا ۔
Clay Minerals and Origin of Life 

میرے ڈاکٹریٹ کے بعد کا(Post- Doctoral) تحقیقی موضوع
Theory of Evolution in Comparison with Qur'anic Account of Origin of the Universe and Creation of the Life and Mankind 

ہے ۔ یہ نظریہ در حقیقت اللہ جل شانہ کی ذات پر حملہ اور اس کا کھلا انکار ہے ۔ یہ در حقیقت امہ مسلمہ کے خلاف ایک انتہائی گناؤنی اور خطرناک سازش ہے ۔ اس کا مقصد پوری امہ مسلمہ کو اللہ جل شانہ سے بیگانہ کردینا چاہتا ہے ۔ یہ باور کرانا چاتا ہے کہ اللہ " بديع السموات اور والأرض" کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ یہ پوری کائنات ، زندگی اور انسان کا وجود صرف اور صرف کیمیائی اور قدرتی ارتقا کا نتیجہ ہے اور کچھ نہین ۔ 

اے اللہ اس سازش سے امہ مسلمہ مسلمہ کی حفاظت فرما ۔ آمین ثم امین ۔

DR.MOHAMMAD LAEEQUE NADVI 

Ph.D. (Arabic Lit.) M.A. Arabic Lit.+Islamic Studies) 

                        DIRECTOR         
Amena Institute of Islamic Studies & Analysis
A Global & Universal Research Institute,       

Donate to promote this Institute 
SBI A/C30029616117
Kolkata, Park Circus Branch

Thanks

laeequenadvi
Автор

You don’t even have a be a Christian to know how stupid evolution is; you just have to be capable of at least the semblance of independent thought!

beyondwoke
Автор

وجود انسان ارتقائی عمل
                             یا 
       اللہ خالق کائنات کی تخلیق سے 


پہلے بشر کی تخلیق جنت میں کی گئی تھی ۔ یہ قرآن کا بیان ہے ۔ وہ زمین پر ارتقا کے ذریعہ وجود میں نہیں آیا ۔ دونوں بیانیہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں ۔ 

آدم علیہ السلام کا جنت سے زمین پر آنا اور سائنس کا یہ کہنا کہ زندگی زمین کے باہر سے آئی ہے ، ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں اور ان میں تطبیق و توافق کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ 


اس ویڈیو سے غلط بات ناظرین تک پہنچے گی

زندگی کے Building Blocks کا خلا سے زمین پر آنے کا یہ مطلب  ہرگز نہیں ہے کہ آدم و حوا علیہما السلام زمین کے باہر کہیں سے زمین پر آئے ہیں ۔ 

آدم علیہ السلام مکمل بنے بنائے بشر ہیں جن کی تخلیق جنت میں کی گئی تھی اور ان سے ان کے زوجہ کو بنایا گیا ۔ قرآن میں آللہ تعالی نے اس حقیقت کو مختلف سورتوں میں بیان کیا ۔ 
بنیادی اجزاء زندگی جن سے سائنسداں بحث کرتے ہیں ۔ ان سے زمین پر ایک خلیہ Cell قدرتی و طبعی ارتقا سے کسی طرح پیدا ہوگیا ۔ ایک خلیہ والا جان دار اور بتدریج متعدد الخلایا والے جان دار پیدا ہوتے رہے ۔ یہ تمام مراحل بالکل افسانوں ہیں ۔ آج کا انسان جسے سائنسداں Homo Sapience کہتے ہیں تقریبا ڈیڑھ دولاکھ پہلے ظہور میں آیا ۔ 

قرآن انسان کے طویل ارتقائی عمل سے گزر کر پیدا ہونے کی بات نہیں کرتا بلکہ اللہ قادر مطلق یہ بیان کرتا ہے کہ اس نے ایک بشر آدم کا کالبد خاکی بنایا 

جسے " فإذا سويته " اور جب میں اسے اچھی طرح بناچکوں ۔ " ونفخت فيه من روحى " اور اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں  اس طرح پہلا بشر پیدا کیا گیا اور پھر اس سے اس کا جوڑا ایک عورت پیدا کی گئی ۔ قرآن مجید کے اس بیانیہ کی ارتقائی تشریح کیسے کی جاسکتی ہے ۔ 

نظریہ ارتقا تخلیق آدم و حوا کے بارے میں قرآن کے بیان کو نہیں مانتا ۔ نظریہ ارتقا کسی ما بعد الطبیعاتی تصور کا سرے سے انکار کرتا ہے یعنی اللہ کی ذات کا وجود نہیں ہے ۔ جب اللہ خالق کے وجود کا انکار کردیا تو رسالت اور انبیاء علیہم السلام پر نزول وحی و کتاب خود بخود کالعدم ہوگیا ۔ یہ ہے نظریہ ارتقا کی اصل حقیقت ۔
اس کے باوجود کچھ نام نہاد دانشور اور جدید تعلیم یافتہ لوگ نظریہ ارتقا کو قرآن سے ثابت کرنے کی سعی ناکام کرتے رہتے ہیں ۔ نظریہ ارتقا کے مطابق آدم کا وجود ہی نہیں ہے ۔ آدم نام کا کوئی فرد بشر ارتقائی تاریخ میں پایا ہی نہیں جاتا ۔ 

میں نے نظریہ ارتقا کے رد میں اس طرح کے مختلف مضامین اردو اور ا انگریزی میں تحریر کیا ہے ۔ ڈاکٹر Dr Zakir Naik on evolution لکھ کر کلک کریں وہاں مختلف Commen boxes میں ان کو  پڑھا جاسکتا ہے ۔ یہ میرے ما بعد الدکتورہ کا تحقیقی موضوع ہے ۔ یہ میرا مستقل موضوع ہے اور میں اس کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں اور جو کچھ ہوسکتا تحریر کرکے یو ٹیوب کے مختلف Comment boxes میں پوسٹ کرتا رہتا ہوں ۔ وما توفیقی الا بالله

ارتقا ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے ۔ بعض سائسندانوں نے صاف اعتراف کیا ہے کہ اس نظریہ کو ہم صرف اس لیے مانتے ہیں کہ اس کا کوئی بدل ہمارے پاس نہیں ہے ۔

سر آرتھر کیتھ( Keith ) نے 1953 میں کہا تھا :
" Evolution is unproved and unprovable. We believe it only because the only alternative is special creation and that is unthinkable".
(Islamic Thought, Dec.196q)

یعنی ارتقا ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے ، اور وہ ثابت بھی نہیں کیا جاسکتا ، ہم اس پر صرف اس لیے یقین کرتے ہیں کہ اس کا واحد بدل تخلیق کا عقیدہ ہے جو سائنسی طور پر ناقابل فہم ہے ، گویا سائنسداں نظریہ ارتقا کی صداقت پر صرف اس لیے متفق ہوگئے ہیں کہ اگر وہ اس کو چھوڑ دیں تو لازمی طور پر انھیں خدا کے تصور پر ایمان لانا پڑے گا ۔

لوگوں کے دل میں خوف چھپا ہوا ہے کہ اللہ کو ماننے کے بعد آزادی کا خاتمہ ہوجائے گا ،
وہ سائنسداں جو ذہنی اور فکری آزادی کو دل و جان سے پسند کرتے ہیں ، پابندی کا کوئی بھی تصور ان کے لیے وحشتناک ہے "۔

( The Evidence of God, p.130)

غیر محدود آزادی کا تصور عالم انسانیت کے لیے انتہائی خطرناک اور مہلک ہے ۔ اس تصور آزادی نے مغربی معاشرے کو تباہ و برباد کردیا ہے ۔ ارتقا کے تصور نے مسلم ممالک اور دنیا کے مسلم معاشرے میں تباہی پیدا کر رہی ہے ۔

            
                ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی 

                             ڈائرکٹر   
  آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس 
A Global and Universal Research Institute 

laeequenadvi
Автор

معراج الرسول صلی اللہ علیہ وسلم عصری طبیعات(Modern physics) کی روشنی میں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم ملکوت کی اچھی طرح سیر اور اللہ کی نشانیوں اور تجلیات ربانی کا مشاہدہ کرنے کے بعد بیت المقدس تشریف لائے پھر براق پر سوار ہوکر مسجد حرام واپس پہنچے ۔

نماز فجر کے بعد جب آپ نے رات کے واقعہ کا تذکرہ کیا تو مشرکین مکہ کو اس پر سخت تعجب ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیسی بے عقلی کی باتیں کر رہے ہیں ! بعض بدبختوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا کہا ۔ رؤساء قریش نے بارہا بیت المقدس کا سفر کیا تھا ۔ انہوں نے امتحان کے لیے بیت المقدس کی ہیئت کے بارے میں پوچھا اور مختلف سوالات کرنے لگے ۔ جن کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت پریشان ہوئے ۔ اس وقت اللہ قادر مطلق نے بیت المقدس کو آپ کے سامنے کردیا ۔ اس طرح آپ (ص) نے ان کے تمام سوالات کیے صحیح صحیح جوابات دیدیے ۔
( بخاری کتاب الصلوة ، كتاب الأنبیاء ، کتاب التوحید اور باب المعراج وغیرہ) ۔ مسلم باب المعراج ، تفسیر روح المعانی جلد ١٥ ص ٤-- ١٠ )

یہاں یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ دعوی نہیں کیا تھا کہ انہوں نے خود اپنی قدرت اور قابلیت سے یہ سفر کیا تھا بلکہ اللہ جل شانہ جو قادر مطلق ہے فرما رہے ہیں کہ انہوں نے یہ سفر معراج کرایا ، وہ ہر نقص اور کمزوری سے پاک ہے ۔
اللہ جل شانہ کو اس بات کا علم تھا کہ تھا کہ لوگ اپنی جہالت اور کم فہمی کی وجہ سے اس کا انکار اور اس پر طرح طرح کے اعتراضات کریں گے ۔ اس لیے یہ بلیغ تعبیر اختیار کیا کہ
سبحان الذی اسری بعبدہ

کہ تمہارے انکار ، کم علمی ، کم فہمی اور بے جا اعتراضات سے پاک و مبرا ہے وہ ذات با برکات اور پیشگی دفاع فرمادیا ۔

جن کا ایمان اللہ قادر مطلق کی ذات پر پختہ اور غیر متزلزل ہے ، ان کے لیے واقعہ معراج کو ماننے مین کوئی اشکال اور پس و پیش نہیں ہوگا ۔ مشکل ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنی ناقص عقل اور کم علمی سے سمجھنے کی کوکرتے ہیں ۔

واقعہ معراج الرسول صلی اللہ علیہ وسلم
عصری فزکس کی روشنی میں

Time is relative not absolute. .

البرٹ آئنسٹائن کے نظریہ اضافت مخصوصہ(Special theory of Relativity ) کے مطابق وقت ایک اضافی شئ ہے یعنی Frame of reference کے ساتھ الگ الگ ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص زمین پر ہے تو اس کا وقت الگ ہوگا اور دوسرا سیارہ مریخ
(خلا) میں ہے تو اس کا وقت الگ ہوگا ۔ وقت کے تعلق سے آئنسٹائن کا یہ نظریہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔

روشنی کی رفتار ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیٹر ہے اور یہ مستقل ( Constant) ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ
اگر ایک شخص ایک خلائی جہاز ( Spaceship) میں سوار ہو کر خلا میں روشنی کی رفتار سے سفر کرتا ہے تو وقت اس کے لیے رک جائے گا ، اس کا سفر خواہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو ، صفر وقت میں ہوگا ۔

سفر معراج جبرئیل ، میکائیل علیہما السلام اور ملائکہ مکرمین کی جلو میں ہوا تھا ۔ یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔ براق جمع ہے برق (بجلی) کی ۔ براق در حقیقت نور سے عبارت ہے ۔ اللہ جل شانہ کی طرف سے بھیجا ہوا ' براق' نور کی سواری تھی جس کی رفتار multiple speed of light تھی ۔ یہ نور اپنی کیفیت میں اس روشنی سے بالکل مختلف ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ معراج کے تمام حالات و کیفیات انسانی عقل و فہم سے بالاتر ہیں

Atomic Particle
کی رفتار روشنی کی رفتار تیز ہے

اب سائنسداں یہ کہتے ہیں کہ نیوٹرینوس( Sub -Atomic particle) روشنی سے زیادہ تیز رفتار ہوتے ہیں ۔ ایک خصوصی اختیار کردہ " سیرا " شعاع کے ذریعہ اس نتیجہ کی توثیق ہوئی ہے ۔ نیوٹرینوس کی ایک شعاع ذیلی جوہری ذرات جو عام مادے کے ساتھ ربط نہیں رکھتے سیرن تجربہ گاہ سے جو جنیوا میں قائم ہے ، INFN تجربہ گاہ گریناسوروم روانہ کیے گئے ، وہ 60 نانو سیکنڈ میں اپنی منزل پر پہنچ گئے ۔ ان کی یہ رفتار روشنی کی شعاع کی رفتار سے تیز تھی ۔

اس سائنسی تحقیق کے نتائج بہت صدمہ انگیز ہیں کیونکہ جدید طبیعات زیادہ تر آئنسٹائن کے نظریہ پر انحصار کرتی ہے کہ روشنی کی رفتار کائنات کی رفتار کی آخری حد ہے اور اس رفتار سے سفر کرنا ممکن نہیں ہے ۔ بہر حال یہ نظریہ ابھی زیر تجربہ ہے ۔ ہوسکتا ہے اس کی توثیق ہوجائے ۔

روشنی سے تیز رفتار جس کو آج سائنس تسلیم کر رہی ہے ، 621 کے سفر معراج میں ایک واقعہ بن کر پیش آچکا ہے ۔ براق کی رفتار روشنی کی شعاع کی رفتار سے بہت تیز تھی ۔

جو لوگ وقت کے تعلق سے عصری طبیعات کے نظریات اور تحقیقات سے واقف ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ سائنسی طور پر یہ عین ممکن ہے ۔

ہماری عقل و فہم کی نارسائی اس عالم محسوسات کے مختلف میدانوں میں صاف نظر آتی ہے تو ماورائے محسوسات میں تو ہماری عقل و فہم اور ادراک
کی نارسائی بالکل عیاں ہے ۔

وقت کیا ہے؟ وقت کے بارے میں سائسندانوں میں بحث جاری ہے کہ وقت کی حقیقت کیا یے ؟
کیا یہ وہ اس یونیورس کا بنیادی حصہ ہے یا اس کا وجود ہی نہیں ہے اور کائنات کو اس کی ضرورت نہیں ہے ، اور نہ وہ کوئی خاص معنی رکھتا ہے ۔ ہم اس کو اپنے دماغ میں بنا تے ہیں ۔ نیورو لوجسٹس اس کی تشریح کرتے ہیں کہ وقت دماغی عمل ہے جو واقعات کے بدلنے کے تناظر میں سمجھا جاتا ہے ۔ وہ وقت کا مستقل وجود تسلیم نہیں کرتے ۔

وقت کائنات میں آنے والے بدلاو کو کہتے ہیں ۔ یہ ایک اضافی relative شئ ہے ۔ سچائی کی گہرائی میں اس کا وجود ہی نہیں ہے Time is an illusion
وہ کہتے ہیں کہ فزکس کے قوانین بھی وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔ اب ہمیں تمام equations پر از سر نو نظر ڈالنی ہوگی ۔

Thunder time theory
کے مطابق وقت کا کوئی وجود نہیں ہے

ختم شد

laeequenadvi
Автор

RE: To The High Commissjioner for Human Rights UNO Office 1211Geneva, 10 Switzerland Subject : Demand for the amount of UAD38200/-only are owed to me since ò2008, against my translation charges rendered from 3/1/2007 to 18/12/2007, for Public Prosecutio...


English
You have written to the Petitions Section of the Office of the United Nations High Commissioner for Human Rights. We hereby acknowledge receipt of your message.

The Petitions Section receives individual complaints, Urgent Action requests (Committee on Enforced Disappearances), and Interstate communications submitted to the United Nations human rights treaty bodies (Committees).

Please note that, owing to the high amount of messages received, if your email does not concern an individual complaint, Urgent Action or Interstate communication addressed to a Committee, we will not be able to respond.

If you are submitting an individual complaint, Urgent Action or Interstate communication, or if you are writing to us in the context of an existing/registered case, we will respond to you in due course.

For information about the UN treaty bodies individual complaints and urgent action procedures, please visit our website: (direct links: fact sheet No. 7 and CED Urgent Actions). If you have difficulties accessing our website, please write to the OHCHR Information Office PW-RS-011, 1211 Geneva 10, and ask for Human Rights Fact Sheet No. 7.
Arabic
لقد قمتم بالتواصل مع قسم الشكاوى التابع لمكتب المفوض السامي لحقوق الإنسان. نحن نؤكد بموجب هذا إستلام رسالتكم.

قسم الشكاوى يستقبل الشكاوى الفردية، وطلبات الإجراءات العاجلة ( بموجـب الاتفاقية الدولية لحماية جميع الأشخاص من الاختفاء القسري)، والبلاغات المتبادلة بين الدول المقدمة إلى الهيئات المنشأة بموجب المعاهدات التابعة للأمم المتحدة (اللجان).

نظرا لعدد المراسلات الواردة، لن نقوم برد على مراسلاتكم إذا كانت لا تتعلق بشكوى فردية، طلب عاجل أو بلاغ متبادل بين الدول موجه إلى إحدى الهيئات المنشأة بموجب المعاهدات/اللجان. إذا كانت مراسلتكم لتقديم شكوى فردية، أو إذا كانت في سياق شكوى موجودة/مسجلة، فسوف نرد عليكم في أسرع وقت ممكن.
لمزيد من المعلومات حول الهيئات العاقدية التابعة للأمم المتحدة، يمكنكم زيارة الموقع الإلكتروني: (الرابط المباشر): Fact Sheet 7 AR
والرابط التالي:( CED Urgent Actions)

أذا وجهتكم صعوبة بزيارة الموقع الإلكتروني، يمكنكم مراسلة مكتب المعلومات التابع لمكتب المفوض السامي لحقوق الإنسان على العنوان التالي: قصر ويلسون، مكتب رقم 011، 10 جنيف 1211 وطلب صحيفة الوقائع رقم 7.

هذا البريد الإلكتروني مرسل وموجه للأشخاص المذكورين في العنوان. محتويات هذا البريد الإلكتوني هي خاصة، سرية، محمية من كشفها و ينبغي ألا تقرأ أو تنسخ أو يكشف عنها أي شخص آخر. إذا لم تكن أنت المستلم/ة المقصود/ة، نرجو منك إخطار المرسل على الفور وحذف هذا البريد الإلكتروني.

laeequenadvi
visit shbcf.ru